مچھلی ایک بہت ہی مفید غذا۔ 10 اہم حقائق | Fish Health Benefits

مچھلی ایک بہت ہی مفید غذا۔ مچھلی کے فوائد 

ایک سایئنسی تحقیق کے مطابق زمین پر مچھلی کا وجود اندازً53 کروڑ سال سے ہے۔ اور انسان ابتدا سے ہی مچھلی کو اپنی خوراک کے طور پہ استعمال کرتا آ رہا ہے۔ دنیا میں مچھلی کی تقریباً 34 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں جن کو پانی کی قسم کے لحاظ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ جیسے سمندر، دریا، جھیل، جوہڑ اور تالاب میں پائی جانے والی مچھلیاں خصوصیات میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔

پاکستان میں مچھلی کی اقسام

دریائی مچھلیاں: رہو، تھیلہ، مہاشیر، موری، چڑا چھلکے والی مچھلیاں ہیں،جبکہ ملی، کھگا، بام، سنگھاڑا، سول اور سرمئ بغیر چھلکے والی مچھلیاں ہیں۔ بعض سمندری مچھلیاں دریاؤں میں داخل ہوجاتی ہیں جیسے کہ دریائے سندھ کی پلہ مچھلی۔ کوٹری، حیدرآباد اور سکھر میں شوق سے کھائ جاتی ہے۔ ٹراؤٹ ٹھنڈے پانی کی مشہور مچھلی ہے۔

سمندری مچھلیاں: پاکستانی سمندروں میں پائی جانے والی مچھلیاں تقریباً وہی ہیں جو دوسرے گرم ممالک میں ہوتی ہیں۔ البتہ پاکستانی ساحلوں سے جھینگوں کی عمدہ اقسام حاصل ہوتی ہیں جو برآمد بھی کی جاتی ہیں ۔ سمندری مچھلی کی مشہور اقسام میں ہیرا، ڈانگری، سرمئی، کنڈ سفید اور کالی، پاپلیٹ سفید اور کالی، ککڑ، ڈانڈیہ، مشکا وغیرہ شامل ہیں۔  

سب سے بہترین مچھلی

مفید ترین مچھلی وہ ہوتی ہے جو نہ بہت چھوٹی اور نہ بہت بڑی ہو۔ وہ کم گہرے پانیوں میں رہتی ہو، پانی صاف اور چلتا ہو اور اس کی غذا کے لیے پانی میں آبی نباتات موجود ہوں۔ جس دریا میں مچھلی پائی جائے اس میں پتھر اور ریت موجود ہوں، پانی پر کھلی دھوپ پڑتی ہو، اس کا پانی رواں ہو یا اس میں موجیں اٹھتی رہتی ہوں۔  مچھلی کی قسمیں بہت سی ہیں لیکن بہترین وہ ہے جس کا ذائقہ اچھا لگے ۔ جلد موٹی نہ ہو۔ گوشت زیادہ چکنا اور باسی نہ ہو۔ جس مچھلی میں چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوں اس میں غذائیت کم اور مضرت زیادہ ہوتی ہے۔

پکانے کا طریقہ

 کھانے کے لحاظ سے سب سے بہترین اور مفید مچھلی سالن میں ہے کیونکہ یہ جلد ہضم ہوتی ہے۔ بغیر تیل کے سٹیم کی ہوئ مچھلی بھی صحت کے لیے مفید ہے لیکن تلی ہوئی مچھلی دیر سے ہضم ہوتی ہے اور اس کے کئی نقصانات ہیں۔ جیسے موٹاپا اور دل کی بیماری ہو سکتی ہے۔  مچھلی جسم کو فربہ یعنی موٹا کرتی ہے۔ سل، دق، خشک کھانسی، ضعف گردہ میں مفید ہے۔ یعنی گردوں کو طاقت دیتی ہے اور جسم سے کمزوری دور کرتی ہے۔  مچھلی کھانے یا اس کا شوربہ پینے سے کئی زہریلے جانوروں کے ڈنگ کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ خالی مچھلی جلد ہضم ہوتی ہے، روٹی ساتھ ہو تو دیر لگ جاتی ہے۔  

فارمی بمقابلہ دریائی و سمندری مچھلی

مچھلی کی زندگی پانی سے ہے اور وہ پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ فارمی مچھلی مصنوعی تالابوں میں پرورش پاتی ہیں جہاں پانی لمبے عرصے تک ٹھرا رہتا ہے اور سارا پانی تبدیل بھی نہیں کیا جاتا اس لیے وہ پانی گندہ اور زہریلا ہو جاتا ہے۔ مچھلی اپنی سانس اور خوراک دونوں اس پانی سے حاصل کرتی ہے لہٰذا جس طرح انسان گندا پانی پینے سے ہیپاٹایٹس اور ٹایئفائڈ وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں مچھلیاں بھی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں بلکہ مر بھی جاتی ہیں اور ظلم کی حد یہ ہے کہ بعض ظالم لوگ وہ مردہ مچھلیاں بھی عوام کو فروخت کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر ہوٹلوں والے ایسی مچھلی سستے داموں خرید کر اپنے گاہکوں کو کھلا دیتے ہیں۔ فارمز میں مچھلی کو برائلر مرغی جیسی مصنوعی خوراک دی جاتی ہے اس لیے یہ مچھلی بھی برائلر مرغی کی طرح کمزور اور بے جان ہوتی ہے۔ جو اپنے کھانے والوں کو فائدے کی بجاۓ نقصان زیادہ پہنچاتی ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ ہمیشہ دریائی یا سمندری مچھلی ہی کھائیں ۔

دل اور دماغ کے لیے مفید

مچھلی میں موجود اومیگا3 فیٹی ایسڈ دماغ کو طاقت دیتا ہے، دماغ کے خلیات کی حفاظت کرتا، اعصابی نظام کو مضبوط اور یادداشت کو بہتر بناتا ہے۔ اس سے انسان افسردگی، ڈپریشن اور گہری پریشانی سے محفوظ رہتا ہے۔ اومیگا3 دماغ کے ساتھ دل کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں دودفعہ مچھلی کھانے سے دل کی بیماری اور اسٹروک کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ لیکن پہلے سے دل کے مرض میں مبتلا لوگوں کو اپنے معالج کے مشورے سے استعمال کرنی چاہیے۔

 اومیگا 3 فیٹی ایسڈذ

روغنی تیزاب یا فیٹی ایسڈ اومیگا 3 ایک قسم کا ضروری فیٹی ایسڈ ہے، یعنی اسے ہمیں اپنی خوراک سے حاصل کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ہمارے جسم میں ضرورت سے بہت کم بنتا ہے۔ فیٹی ایسڈ کی تین اہم اقسام ہیں: ڈی ایچ اے، ای پی اے اور اے ایل اے۔ ڈی ایچ اے اور ای پی اے مچھلی اور دوسری سمندری مخلوق میں ذیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے اور وہ اچھی کوالٹی کا ہوتا ہے۔ جو کسی بھی اور خوراک سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اے ایل اے پودوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے جیسے السی کے بیج ، چیا سیڈ، اخروٹ وغیرہ۔

اومیگا3 جھلیوں کے اہم اجزاء ہیں جو آپ کے جسم کے ہر خلیے کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ڈی ایچ اے کی سطح خاص طور پر ریٹنا (آنکھ)، دماغ اور سپرم سیلز میں زیادہ ہوتی ہے۔ اومیگا 3 آپ کے جسم کو توانائی فراہم کرنے کے لیے کیلوریز بھی فراہم کرتا ہے اور آپ کے دل، خون کی نالیوں، پھیپھڑوں، مدافعتی نظام، اور اینڈوکرائن سسٹم (ہارمون پیدا کرنے والے غدود کا نیٹ ورک) میں بہت سے کام کرتا ہے۔

اومیگا 3 کی اس غیرمعمولی افادیت کی وجہ سے ماہرین صحت تجویز کرتے ہیں کہ سارا سال ہفتے میں ایک دو دفعہ مچھلی یا جھینگے وغیرہ کو اپنی خوراک کا حصہ ضرور بنانا چاہیے۔ لیکن یاد رہے ذیادہ درجہ حرارت پہ فیٹی ایسڈذ ضائع ہو جاتے ہیں اس لیے مچھلی کو فرائی کی بجاۓ سٹیم یا بیک کرنا ذیادہ فائدہ مند ہے۔

مچھلی میں پائے جانے والے اومیگا 3 فیٹی ایسڈ پھیپھڑوں میں ہوا کے بہاؤ کو بڑھانے میں مدد کرتے ہیں اور اس وجہ سے آپ کے پھیپھڑوں کو انفیکشن سے پاک رکھتے ہیں اور سردیوں کے موسم میں سردی اور فلو کو بھی شکست دیتے ہیں۔

سردیوں کے مہینوں اور جوڑوں کے درد میں طویل مدتی تعلق ہوتا ہے اور اس تکلیف دہ بندھن کو توڑنے کا بہترین طریقہ مچھلی کا استعمال ہے۔ اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سوزش کو کم کرکے اور گنٹھیا کی علامات کو کم کرکے ایسی حالتوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

پروٹین

مچھلی میں پروٹین کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ یہ پروٹین جسم کی مجموعی نشوونما اور پٹھوں کی تعمیر میں مدد کرتی ہے۔ پروٹین کی وجہ سے بچے اور بوڑھے دونوں مچھلی کھا سکتے ہیں۔ مچھلی میں تقریباً 20 فیصد اچھی کوالٹی کی پروٹین ہوتی ہے جو باقی گوشت کے مقابلے میں جلد ہضم بھی ہو جاتی ہے۔ مچھلی اگر بغیر روٹی کے کھائ جاۓ تو اوسطً 4 گھنٹے میں ہضم ہو جاتی ہے۔

وٹامن ڈی

تقریباً 40% لوگوں میں وٹامن ڈی کی سطح کم ہے۔ اس کا تعلق دل کی بیماری، ذیابیطس، کینسر، ڈیمنشیا اور کچھ خود کار قوت مدافعت کی بیماریوں سے ہے۔ وٹامن ڈی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ سورج کی روشنی ہے۔ تاہم، چربی والی مچھلی وٹامن ڈی کے چند غذائی ذرائع میں سے ایک ہے اور اچھی مقدار میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ آپ کی خوراک میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار کیلشیم کے جذب میں مدد کرتی ہے اور کیلشیم کی کمی بھی آج کل اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے۔

وٹامن بی 12

مچھلی میں پایا جانے والا وٹامن بی 12 صحت مند سرخ خون کے خلیوں کی نشوونما، ڈی این اے کی تولید اور اعصابی افعال کے لیے اہم ہے۔ کافی مقدار میں وٹامن بی 12 کا استعمال ڈیمنشیا اور دل کی بیماری کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔ وٹامن بی 12 کی کمی دائمی تھکاوٹ اور خون کی کمی جیسے مسائل سے بھی منسلک ہے۔

بینائی اور آنکھوں کی صحت

ایجنسی فار ہیلتھ کیئر ریسرچ اینڈ کوالٹی نے دریافت کیا ہے کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈ بینائی اور آنکھوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ اور آنکھیں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز میں بہت زیادہ مرتکز ہوتی ہیں اور انہیں اپنی صحت اور کام کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ مچھلی ان اچھی چربی کے بہترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ مچھلی میں وٹامن اے کی موجودگی بھی بینائی بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ وٹامن اے ہماری بصارت کو برقرار رکھنے میں کس طرح اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مچھلی انسانوں میں رات کے اندھے پن کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مچھلی کھانے میں احتیاطیں

ایک پرانی کہاوت ہے کہ “ہر چیز کی ذیادتی بری ہے۔” اس لیے جو بھی چیز کھائیں، میانہ روی سے کھائیں تاکہ اس کے فوائد حاصل کر سکیں اور اس کے نقصانات سے بچ سکیں۔ سمندری مچھلی کی بعض اقسام ایسی ہیں جن میں مرکری کی مقدارذیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح بڑے سائز اور بڑی عمر کی مچھلی میں بھی مرکری کی مقدار ذیادہ ہو سکتی ہے اس لیے ایسی مچھلی کم سے کم کھائیں۔ فارمی مچھلی کو رہنے کے لیے قدرتی ماحول میسر نہیں ہوتا جس میں وہ صحیح طرح نشوونما پا سکے اس لیے فارمی مچھلی سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

ہمارے ہیں سب سے ذیادہ فرائی مچھلی پسند کی جاتی ہے جو کہ صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ مچھلی کو تیل میں پکانا، جیسے کہ سبزیوں کا تیل، جس میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈز کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، اس میں سوزش والے اومیگا 6 کے مواد کو بڑھا سکتا ہے۔ اوریہ سوزش آجکل کی تمام بیماریوں جیسا کہ ذیابیطس، بلڈپریشر، دل کا دورہ، کولیسٹرول، جوڑوں کے درد، کینسر وغیرہ کی بنیاد بنتی ہے۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ اکثر ہوٹلوں والے گھٹیا ترین سستے پام آئل میں مچھلی فرائی کرتے ہیں جوبار بار استعمال کی وجہ سے اور بھی زہریلا ہو جاتا ہے۔ فرائی کے لیے سرسوں کا خالص تیل سب سے بہترین ہے۔

مچھلی کے ساتھ یا فوراً بعد دودھ اور انڈے کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مچھلی کھانے کے بعد پیاس بہت لگتی ہے لیکن سادے پانی کی بجائے سرکہ/لیموں کی سکنجبین یا مالٹے کا رس ذیادہ مفید ہے۔

ہماری ٹیم نے یہ مضمون مختلف ذرائع سے تحقیق کے بعد مفاد عامہ کے لیے لکھا ہے۔ ان معلومات کا استعمال اپنے حالات کے مطابق کرنا چاہیے۔ ہم کسی قسم کے نتائج کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *